Monday 23 January 2017

ندیاں بن گئیں ڈھلوان کے ہر گاؤں میں

ندیاں بن گئیں ڈھلوان کے ہر گاؤں میں
اب تو سیلاب سماتے نہیں دریاؤں میں
کیوں وہاں چھائے، جہاں انکی ضرورت ہی نہیں
کاش بادل یہ برستے کبھی صحراؤں میں
ان کو پیڑوں میں چھپی آگ دکھائے کوئی
وہ جو بیٹھے ہیں چناروں کی گھنی چھاؤں میں
کر گیا اس کو جو بے گھر کوئی سیلابِ بلا
میں بسا لوں گا اسے اپنی تمناؤں میں
پاؤں کٹوائے بغیر اپنی رہائی ہے محال
کتنے مضبوط سلاسل ہیں مِرے پاؤں میں
ختم ہو جائے یہ جھگڑا کہ میں ہوں کس کا غلام
بانٹ دو تم مجھے یکساں مِرے آقاؤں میں
تم کو بچنا ہے جو توہینِ سماعت سے قتیلؔ
شہر کو چھوڑ کے بس جاؤ کسی گاؤں میں

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment