ندیاں بن گئیں ڈھلوان کے ہر گاؤں میں
اب تو سیلاب سماتے نہیں دریاؤں میں
کیوں وہاں چھائے، جہاں انکی ضرورت ہی نہیں
کاش بادل یہ برستے کبھی صحراؤں میں
ان کو پیڑوں میں چھپی آگ دکھائے کوئی
کر گیا اس کو جو بے گھر کوئی سیلابِ بلا
میں بسا لوں گا اسے اپنی تمناؤں میں
پاؤں کٹوائے بغیر اپنی رہائی ہے محال
کتنے مضبوط سلاسل ہیں مِرے پاؤں میں
ختم ہو جائے یہ جھگڑا کہ میں ہوں کس کا غلام
بانٹ دو تم مجھے یکساں مِرے آقاؤں میں
تم کو بچنا ہے جو توہینِ سماعت سے قتیلؔ
شہر کو چھوڑ کے بس جاؤ کسی گاؤں میں
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment