Tuesday 31 January 2017

نکلا ہوں شہر خواب سے ایسے عجیب حال میں

نکلا ہوں شہرِ خواب سے، ایسے عجیب حال میں
غرب مِرے جنوب میں، شرق مِرے شمال میں
کوئی کہیں سے آئے اور مجھ سے کہے کہ زندگی
تیری تلاش میں ہے دوست بیٹھا ہے کس خیال میں
ڈھونڈتے پھر رہے ہیں سب میری جگہ مِرا سبب
کوئی ہزار میل میں، کوئی ہزار سال میں
لفظوں کے اختصار سے کم تو ہوئی سزا مِری
پہلے کہانیوں میں تھا، اب ہوں میں اک مثال میں
کمروں میں بستروں کے بیچ کوئی جگہ نہیں بچی
خواب ہی خواب ہیں، آنکھوں کے ہسپتال میں
گرگ و سمند و موش و سگ، چھانٹ کے ایک ایک رگ
پھرتے ہیں سب الگ الگ، رہتے ہیں ایک کھال میں

ذوالفقار عادل

No comments:

Post a Comment