Sunday, 22 January 2017

شوخی نے تیرے کام کیا اک نگاہ میں

شوخی نے تیرے کام کیا اک نگاہ میں
صوفی ہے بت کدے میں، صنم خانقاہ میں
دل میں سما گئی ہیں قیامت کی شوخیاں
دو چار دن رہا تھا کسی کی نگاہ میں
اس توبہ پر ہے ناز تجھے زاہد اس قدر
جو ٹوٹ کر شریک ہو میرے گناہ میں
آتی ہے بات بات مجھے یاد بار بار
کہتا ہوں دوڑ دوڑ کے قاصد سے راہ میں
کیسا نظارہ کس کا اشارہ کہاں کی بات
سب کچھ ہے اور کچھ نہیں نیچی نگاہ میں
مشتاق اس صدا کے بہت دردمند تھے
اے داؔغ تم تو بیٹھ گئے ایک آہ میں

داغ دہلوی

No comments:

Post a Comment