کوئی روزن نہ دریچہ نہ کوئی در رکھا
چار دیواری کو زندان بنا کر رکھا
ریت کا تاج محل پانی میں بہنا ہی تھا، جب
دشت حصے میں مِرے، آپ سمندر رکھا
جادوئی پھول کھلا صحن میں خوشبو پھیلی
روشنی پھوٹ پڑی کمرے کی دیواروں سے
چاند نے ہاتھ دریچے میں جب آ کر رکھا
جس میں روشن ہیں کئی خواب چراغوں کی طرح
آج کینوس پہ اسی آنکھ کا منظر رکھا
اس نے شوکیس میں اک کانچ کی گڑیا رکھی
جانے کیا سوچ کے پھر ساتھ ہی پتھر رکھا
میری مٹی میں اگائی گئی وحشت کیوں کر
کیوں یہ جنگل سا مِری ذات کے اندر رکھا
مجھ کو گستاخ نہ کہہ، میں نے تو بس اتنا کیا
اپنا پاؤں تِرے پاؤں کے برابر رکھا
سدرہ سحر عمران
No comments:
Post a Comment