Tuesday 31 January 2017

کوئی روزن نہ دریچہ نہ کوئی در رکھا

کوئی روزن نہ دریچہ نہ کوئی در رکھا 
چار دیواری کو زندان بنا کر رکھا 
ریت کا تاج محل پانی میں بہنا ہی تھا، جب
دشت حصے میں مِرے، آپ سمندر رکھا 
جادوئی پھول کھلا صحن میں خوشبو پھیلی 
جس نے تا دیر مِرے گھر کو معطر رکھا 
روشنی پھوٹ پڑی کمرے کی دیواروں سے
چاند نے ہاتھ دریچے میں جب آ کر رکھا
جس میں روشن ہیں کئی خواب چراغوں کی طرح 
آج کینوس پہ اسی آنکھ کا منظر رکھا 
اس نے شوکیس میں اک کانچ کی گڑیا رکھی
جانے کیا سوچ کے پھر ساتھ ہی پتھر رکھا 
میری مٹی میں اگائی گئی وحشت کیوں کر 
کیوں یہ جنگل سا مِری ذات کے اندر رکھا 
مجھ کو گستاخ نہ کہہ، میں نے تو بس اتنا کیا 
اپنا پاؤں تِرے پاؤں کے برابر رکھا

سدرہ سحر عمران

No comments:

Post a Comment