یہی نہيں کہ بلاؤں کو دور کرتے ہوئے
وہ مجھ تک آیا کئی دل عبور کرتے ہوئے
جو سادگی میں بلا کا حسین دِکھتا تھا
حسین تر نظر آیا غرور کرتے ہوئے
ہماری آنکھ کے دریا میں دیکھ سکتے ہو
یہاں کے لوگ ادب آداب کے نہيں قابل
مجھے یقیں تھا میاں جی حضور کرتے ہوئے
اب ایسے علم پہ الزام کیا دھریں جس نے
شعور چھین لیے باشعور کرتے ہوئے
پھر ایک دن مِری ہمزاد سے ہوئی باتیں
قریب تھے جو مِرے ان کو دور کرتے ہوئے
اس آئینے میں دھڑکتے تھے کتنے دل عامی
کسی نے سوچا نہيں چکنا چور کرتے ہوئے
عمران عامی
No comments:
Post a Comment