Thursday 26 January 2017

اک دن جو بہر فاتحہ اک بنت مہر و ماہ

فتنۂ خانقاہ

اک دن جو بہرِ فاتحہ اک بنتِ مہر و ماہ
پہنچی نظر جھکائے ہوئے سُوئے خانقاہ
زُہاد نے اٹھائی جھجکتے ہوئے نگاہ
ہونٹوں پہ دب کے ٹوٹ گئی ضرب لا اِلٰہ
برپا ضمیرِ زُہد میں کہرام ہو گیا
ایماں، دلوں میں لرزہ بر اندام ہو گیا
یوں آئی ہر نگاہ سے آوازِ الاماں
جیسے کوئی پہاڑ پہ آندھی میں دے آذاں
دھڑکے وہ دل کہ روح سے اٹھنے لگا دھواں
ہلنے لگیں شیوخ کے سینوں پہ داڑھیاں
پرتو فگن جو جلوۂ جانانہ ہو گیا
ہر مرغِ خلدِ حسن کا پروانہ ہوگیا
اس آفتِ زمانہ کی سرشاریاں نہ پوچھ
نکھرے ہوئے شباب کی بیداریاں نہ پوچھ
رخ پر ہوائے شام کی گلباریاں نہ پوچھ
کاکل کی ہر قدم پہ فسوں کاریاں نہ پوچھ
عالم تھا وہ خرام میں اس گل عذار کا
گویا نزول رحمتِ پروردگار کا
گردن کے لوچ میں، خم چوگاں لیے ہوئے
چوگاں کے خم میں گوئے دل و جاں لیے ہوئے
رخ پر لٹوں کا ابر پریشاں لیے ہوئے
کافر گھٹا کی چھاؤں میں قرآں لیے ہوئے
آہستہ چل رہی تھی عقیدت کی راہ سے
یا لو نکل رہی تھی دِل خانقاہ سے
آنکھوں میں آگ، عشوۂ آہن گداز کی
لہریں ہر ایک سانس میں سیلابِ ناز کی
لپٹیں ہوا کے دوش پہ زلفِ دراز کی
آئینے میں دمک، رخِ آئینہ ساز کی
آغوشِ مہر و ماہ میں گویا پلی ہوئی
سانچے میں آدمی کے گلابی ڈھلی ہوئی
ساون کا ابر، کاکلِ شگبوں کے دام میں
موجیں شرابِ سرخ کی آنکھوں کے جام میں
رنگ طلوعِ صبح، رخِ لالہ فام میں
چلتا ہوا شباب کا جادو خرام میں
انساں تو کیا، یہ بات پری کو ملی نہیں
ایسی تو چال کبکِ دری کو ملی نہیں
ڈوبی ہوئی تھی جنبشِ مژگاں شباب میں
یا دل دھڑک رہا تھا محبت کا خواب میں
چہرے پہ تھا عرق کہ نمی تھی گلاب میں
یا اوس موتیے پہ شبِ ماہتاب میں
آنکھوں میں کہہ رہی تھیں یہ موجیں خمار کی
یوں بھیگتیں ہیں چاندنی راتیں بہار کی
ہاتھ اس نے فاتحہ کو اٹھائے جو ناز سے
آنچل ڈھلک کے رہ گیا زلفِ دراز سے
جادو ٹپک پڑا نگہِ دل نواز سے
دل دہل گئے جمال کی شانِ نیاز سے
پڑھتے ہی فاتحہ جو وہ اک سمت پھر گئی
اک پیر کے تو ہاتھ سے تسبیح گر گئی
فارغ ہوئی دعا سے جو وہ مشعلِ حرم
کانپا لبوں پہ سازِ عقیدت کا زیر و بم
ہونے لگی روانہ بہ اندازِ موج یَم
انگڑائی آ چلی تو بہکنے لگے قدم
انگڑائی فرطِ شرم سے یوں ٹوٹنے لگی
گویا صنم کدے میں کرن پھوٹنے لگی
ہر چہرہ چیخ اٹھا تیرے ساتھ جائیں گے
اے حسن تیری راہ میں دھونی رمائیں گے
اب اس جگہ سے اپنا مصلیٰ اٹھائیں گے
قربان گاہِ کفر پر ایمان چڑھائیں گے
کھاتے رہے فریب بہت خانقاہ میں
اب سجدہ ریز ہوں گے تِری بارگاہ میں
سورج کی طرح زُہد کا ڈھلنے لگا غرور
پہلوئے عاجزی میں مچلنے لگا غرور
رہ رہ کے کروٹیں سی بدلنے لگا غرور
رخ کی جواں لو سے پگھلنے لگا غرور
ایماں کی شان عشق کے سانچے میں ڈھل گئی
زنجیرِ زُہد سرخ ہوئی اور گل گئی
پل بھر میں زلفِ لیلئ تمکین بڑھ گئی
دم بھر میں پارسائی کی بستی اجڑ گئی
جس نے نظر اٹھائی نظر رخ پہ گڑ گئی
گویا ہر اک نگاہ میں زنجیر پڑ گئی
طوفان آب و رنگ میں زُہاد کھو گئے
سارے کبوترانِ حرم ذبح ہو گئے
زاہد حدود عشقِ خدا سے نکل گئے
انسان کا جمال جو دیکھا پھسل گئے
ٹھنڈے تھے لاکھ حسن کی گرمی سے جل گئے
کرنیں پڑیں تو برف کے تودے پگھل گئے
القصہ دین، کفر کا دیوانہ ہو گیا
کعبہ ذرا سی دیر میں بت خانہ ہو گیا

جوش ملیح آبادی

No comments:

Post a Comment