کوئی دلیل مِرے جرم کی، سند مِرے دوست
بے اعتباری کی ہوتی ہے کوئی حد مرے دوست
ابھی تلک تِری الجھن سلجھ نہیں رہی ہے
بگڑ چکے ہیں مِرے دیکھ، خال و خد مرے دوست
بھلے ڈبو دے مجھے میرا چُلو بھر پانی
یہ آئینےمیں سنورنا تجھے مبارک ہو
طلب نہیں تو بھلے خاک ہو رسد مرے دوست
زمیں سے رکھنا ہی پڑتا ہے رابطہ قیصر
شجر کا اونچا ہو جتنا بھی چاہے قد مرے دوست
زبیر قیصر
No comments:
Post a Comment