جگر کا خون پینے کے لئے ہیں
ادھوری عمر جینے کے لئے ہیں
غموں میں ہی گزر جاتی ہیں عمریں
مگر خوشیاں مہینے کے لئے ہیں
کبھی مہر و مروت کے لئے تھے
شرافت کے لئے عزت کہاں ہو
یہاں رُتبے کمینے کے لئے ہیں
تِرے ترکش کے تیروں کا پتہ ہے
سبھی میرے ہی سینے کے لئے ہیں
امیروں کے لئے ٹھنڈی ہوائیں
فقط مفلس پسینے کے لئے ہیں
امانت کے نگر کے سارے رستے
صداقت کے مدینے کے لئے ہیں
کسی رستے سے واقف ہی نہیں ہیں
قدم جو تیرے زینے کے لئے ہیں
بڑی حیرت سے پوچھے ہے رفوگر
یہ چاکِ دل بھی سینے کے لئے ہیں؟
میاں دولت نگر کے بادباں سب
امیروں کے سفینے کے لئے ہیں
تبسم نواز
No comments:
Post a Comment