Saturday 28 January 2017

جذبوں کے تن پہ آئے ہوئے زخم چھیل کے

جذبوں کے تن پہ آئے ہوئے زخم چھیل کے
قصے سنا مجھے کسی شامِ طویل کے
صبر و رضا سے پُر ہے یہ تشنہ بدن مرا
نخرے اٹھاؤں کس لیے دریا ذلیل کے
کھل کر نہیں کھلے گی یہ ذہنِ نفیس پر
کرتوت جانتا ہوں میں دنیا بخیل کے
کل میں نے چاند سے کہا آہستگی کے ساتھ
تم فرد لگ رہے ہو محبت قبیل کے
میں زندگی کو زندگی مانوں گا تب سعید
الفاظ لے کے آئے وہ اپنی دلیل کے

مبشر سعید

No comments:

Post a Comment