جذبوں کے تن پہ آئے ہوئے زخم چھیل کے
قصے سنا مجھے کسی شامِ طویل کے
صبر و رضا سے پُر ہے یہ تشنہ بدن مرا
نخرے اٹھاؤں کس لیے دریا ذلیل کے
کھل کر نہیں کھلے گی یہ ذہنِ نفیس پر
کل میں نے چاند سے کہا آہستگی کے ساتھ
تم فرد لگ رہے ہو محبت قبیل کے
میں زندگی کو زندگی مانوں گا تب سعید
الفاظ لے کے آئے وہ اپنی دلیل کے
مبشر سعید
No comments:
Post a Comment