ٹھنڈی انگلیاں
سرد انگلی اپنے مفلس باپ کی پکڑے ہوئے
رو رہا ہے ایک بچہ اک دُکاں کے سامنے
اک کھلونے کی طرف انگلی اٹھا کر بار بار
کچھ نہیں کہتا ہے لیکن رو رہا ہے بار بار
باپ کی بجھتی ہوئی آنکھوں میں ہے دنیا سیاہ
باپ کی نمناک آنکھوں میں پئے تکمیل یاس
کیا قیامت ہے پسر کے آنسوؤں کا انعکاس
دل ہوا جاتا ہے بچے کے بلکنے سے فگار
کہہ رہا ہے زیرِ لب فریاد اے پروردگار
واہ کیا تقدیر ہے اس بندۂ معصوم کی
ہو چلی ہیں انگلیاں ٹھنڈی میرے معصوم کی
جوش ملیح آبادی
No comments:
Post a Comment