Thursday 26 January 2017

سرد انگلی اپنے مفلس باپ کی پکڑے ہوئے

ٹھنڈی انگلیاں

سرد انگلی اپنے مفلس باپ کی پکڑے ہوئے
رو رہا ہے ایک بچہ اک دُکاں کے سامنے
اک کھلونے کی طرف انگلی اٹھا کر بار بار
کچھ نہیں کہتا ہے لیکن رو رہا ہے بار بار
باپ کی بجھتی ہوئی آنکھوں میں ہے دنیا سیاہ
رخ پہ گردِ مفلسی ہے جیبِ خالی پر نگاہ
باپ کی نمناک آنکھوں میں پئے تکمیل یاس
کیا قیامت ہے پسر کے آنسوؤں کا انعکاس
دل ہوا جاتا ہے بچے کے بلکنے سے فگار
کہہ رہا ہے زیرِ لب فریاد اے پروردگار
واہ کیا تقدیر ہے اس بندۂ معصوم کی
ہو چلی ہیں انگلیاں ٹھنڈی میرے معصوم کی

جوش ملیح آبادی

No comments:

Post a Comment