Wednesday 25 January 2017

ساعت وصال یار کی یوں ہے نگاہ میں

ساعت وصالِ یار کی یوں ہے نگاہ میں
جیسے معاً کہیں سے اضافہ ہو جاہ میں
اترے تھی صحنِ شوق میں جو بامِ یار سے
تھا کیا سرور اس نگہِ گاہ گاہ میں
دیکھا نہ زندگی میں پھر ایسا کوئی نشیب
کیا دلکشی تھی اس کے زنخداں کے چاہ میں
کیا پھر سے رخشِ قلب و بدن بے عناں ہوا
ہے کھلبلی سی کیوں، یہ جنوں کی سپاہ میں
ایندھن بِناں رواں کوئی پہیہ نہ ہو سکا
تھا بے رسد جو رہ گیا آخر کو راہ میں
اچھا ہوا جو اس سے ہو ماجؔد بچے رہے
آخر دھرا ہی کیا ہے فقط واہ واہ میں

ماجد صدیقی

No comments:

Post a Comment