حالات کی بھیگی رات بھی ہے جذبات کا تیز الاؤ بھی
میں کون سی آگ میں جل جاؤں، اے نکتہ ورو سمجھاؤ بھی
ہر چند نظر نے جھیلے ہیں ہر بار سنہرے گھاؤ بھی
ہم آج بھی دھوکا کھا لیں گے تم بھیس بدل کر آؤ بھی
گرداب کے خونیں حلقوں سے جب کھیل چکی ہے ناؤ بھی
بے کیف جھکولے کانٹوں کو شاداب تو کیا کر پائیں گے
جو پھول پڑے ہیں راہوں میں ان پھولوں کو مہکاؤ بھی
ہم سے تو جفاؤں کے شکوے تم ہنس کر چھین بھی سکتے ہو
ہم دل کو پشیماں کر لیں گے، تم پیار سے آنکھ جھکاؤ بھی
گل رنگ چراغوں کی لو سے تاریک اجالے پھوٹ بہے
ہر طاق میں گھور اندھیرا ہے اس رنگ محل کو ڈھاؤ بھی
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment