Friday, 27 January 2017

بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں تنہائی جنہیں دہراتی ہے

گیت

بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں تنہائی جنہیں دہراتی ہے 
رو رو کے گزرتی ہیں راتیں آنکھوں میں سحر ہو جاتی ہے

شرما کے کبھی چھپ چھپ جانا ہنس ہنس کے کبھی چل چل دینا
چنری کے ملائم کونے کو دانتوں میں دبا کر بل دینا 
آواز کسی کے ہنسنے کی کانوں میں ابھی تک آتی ہے

وہ قلب و نظر کے ایماء پر مطلوب زمانے کی نظریں
روحوں میں و فا کی زنجیریں اس طرح کہ دل کے دل بس میں
وہ جوش میں وعدوں پر وعدے جذبات میں قسموں پر قسمیں
بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں تنہائی جنہیں دہراتی ہے

وہ تپتی منڈیریں گرم چھتیں کوٹھے کے وہ پھیرے پر پھیرے
وہ تیز قدم اڑتا آنچل چہرے کو پریشانی گھیرے
مل جائے جو کوئی ہمجولی افسانے وہ تیرے اور میرے
بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں تنہائی جنہیں دہراتی ہے

دن بھر وہ ذرا سی آہٹ پر چلمن کے قریب آنا جانا
زینے پر وہ چھپ کر خط لکھنا، خط لکھ کے لرزنا تھرانا
تنہائی ملے تو رو لینا، تنہائی نہ ہو تو گھبرانا
بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں تنہائی جنہیں دہراتی ہے

احسان دانش

1 comment: