گیت
بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں تنہائی جنہیں دہراتی ہے
رو رو کے گزرتی ہیں راتیں آنکھوں میں سحر ہو جاتی ہے
شرما کے کبھی چھپ چھپ جانا ہنس ہنس کے کبھی چل چل دینا
چنری کے ملائم کونے کو دانتوں میں دبا کر بل دینا
آواز کسی کے ہنسنے کی کانوں میں ابھی تک آتی ہے
وہ قلب و نظر کے ایماء پر مطلوب زمانے کی نظریں
روحوں میں و فا کی زنجیریں اس طرح کہ دل کے دل بس میں
وہ جوش میں وعدوں پر وعدے جذبات میں قسموں پر قسمیں
بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں تنہائی جنہیں دہراتی ہے
وہ تپتی منڈیریں گرم چھتیں کوٹھے کے وہ پھیرے پر پھیرے
وہ تیز قدم اڑتا آنچل چہرے کو پریشانی گھیرے
مل جائے جو کوئی ہمجولی افسانے وہ تیرے اور میرے
بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں تنہائی جنہیں دہراتی ہے
دن بھر وہ ذرا سی آہٹ پر چلمن کے قریب آنا جانا
زینے پر وہ چھپ کر خط لکھنا، خط لکھ کے لرزنا تھرانا
تنہائی ملے تو رو لینا، تنہائی نہ ہو تو گھبرانا
بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں تنہائی جنہیں دہراتی ہے
احسان دانش
شروع جے شعر صحیح نہیں۔
ReplyDelete