دیوانے، دیوانے ٹھہرے کھیل گئے انگاروں سے
آبلہ پائی اب کوئی پوچھے ان ذہنی بیماروں سے
بات تو جب ہے شعلے نکلیں بربطِ دل کے تاروں سے
شور نہیں نغمے پیدا ہوں تیغوں کی جھنکاروں سے
کس نے بسایا تھا اور ان کو کس نے یوں برباد کیا
کیسے گلے ملتے ہیں گلے سے اب کے بہاراں بھول گئے
یاروں نے بھرپور گلوں کا کام لیا تلواروں سے
کہہ دو مغنی سے اب ٹھہرے خواب آور نغمے روکے روکے
کوئی ہمیں للکار رہا ہے، پربت سے میناروں سے
شاہ کا رخ ہے اترا اترا، شہ کیا دیتا ہے شاطر
ہاری بازی جیت گئے ہم، پیدل سے راہواروں سے
وقت کے طوفانی دھاروں سے کتنے ساحل ڈوب گئے
نت نئے ساحل پھر ابھرے ہیں ان طوفانی دھاروں سے
پل میں تولہ پل میں ماشہ، پل میں سب درہم برہم
ذرۂ خاکی نظریں ملائے بیٹھے ہیں سیاروں سے
پتھر کا دل پانی پانی زنداں کی تاریخوں پر
آج تلک رہ رہ کر چیخیں اٹھتی ہیں دیواروں سے
وامق جونپوری
No comments:
Post a Comment