نشیلا ترا ہر قدم دیکھتے ہیں
سرِ دشت آہو کا رم دیکھتے ہیں
سرِ سرو بھی تیری قامت کے آگے
لگے جیسے اندر سے خم دیکھتے ہیں
مناظر جہاں ہوں دل آزاریوں کے
ہماری کسی بات سے تو نہیں ہے
یہ کیوں تیرے پلّو کو نم دیکھتے ہیں
دھواں دھول اور شور ہیں عام اتنے
کہ سانسوں تلک میں بھی سَم دیکھتے ہیں
تِری آنکھ پر راز افشانیاں ہیں
تِرے پاس بھی جامِ جَم دیکھتے ہیں
مسلسل ہے ماجؔد یہ کیوں ژالہ باری
کہ ہر سو ستم پر ستم دیکھتے ہیں
ماجد صدیقی
No comments:
Post a Comment