Saturday 21 January 2017

یہ دم اس کے وقت رخصت بہ صد اضطراب الٹا

یہ دم اس کے وقتِ رخصت بہ صد اضطراب الٹا
کہ بہ سوئے دل مژہ سے وہیں خونِ ناب الٹا
سرِ لوح اس کی صورت کہیں لکھ گیا تھا مانی
اسے دیکھ کہ نہ میں نے ورقِ کتاب الٹا
یہ الٹ گئی ہے قسمت کہ جو دل کسی کو دوں میں
وہ مرے ہی سر سے مارے اسے کر خراب الٹا
یہ نقاب پوش ظالم کوئی زور ہے کہ جس نے
کیے خون سینکڑوں اور نہ ذرا نقاب الٹا
میں عجب یہ رسم دیکھی، مجھے روزِ عیدِ قرباں
وہی ذبح بھی کرے اور وہی لے ثواب الٹا
جو بوقتِ غسل اپنا وہ پھرا لے موج سے منہ
تو پھراتے ہی منہ اس کے لگے بہنے آب الٹا
میں لکھا ہے خط تو قاصد! پہ یہ ہو گا مجھ پہ احساں
انہیں پانو آئے گا تو جو لیے جواب الٹا
تِرے آگے مہرِ تاباں ہے زمیں پہ سر بہ سجدہ
یہ ورق کا گنجفے کے نہیں آفتاب الٹا
نہیں جائے شکوہ اس سے ہمیں مصحفؔی ہمیشہ
یہ زمانے کا رہا ہے یوں ہی انقلاب الٹا

غلام ہمدانی مصحفی

No comments:

Post a Comment