نہ سوالوں سے آزماتا ہوں
نہ جوابوں سے دل جلاتا ہوں
نہ کسی بھید کی کرید ہے اب
نہ دلیلوں میں سر کھپاتا ہوں
نہ کوئی بت تراشنا ہے اب
نہ ہے دعویٰ کوئی بڑائی کا
نہ میں خود کو ولی بتاتا ہوں
نہ بیاباں پہ اب نظر میری
نہ کوئی محفلیں سجاتا ہوں
نہ کوئی رنگ، رنگ دکھتا ہے
نہ اندھیروں سے جاں چھڑاتا ہوں
نہ رہیں حاجتیں جہاں سے اب
نہ میں اب جھولیاں اٹھاتا ہوں
نہ ہیں اب یاد معنی لفظوں کے
نہ رویوں پہ تلملاتا ہوں
نہ مرا دل بہار میں لگتا
نہ کوئی گل میں اب کھلاتا ہوں
نہ گلہ خواب سے کوئی باقی
نہ میں راتوں کو اب جگاتا ہوں
نہ کسی سے بھی اب عداوت ہے
نہ محبت پہ بھنبھناتا ہوں
نہ وہ کرب و فراق کے جھنجھٹ
نہ کسی آنکھ جھلملاتا ہوں
نہ ہوس مال و زر کی اب باقی
نہ ہے کچھ پاس، ناں گنواتا ہوں
نہ وکالت میں خود کی کرتا ہوں
نہ عدالت کوئی لگاتا ہوں
نہ کوئی شعر میرا باقی ہے
نہ میں زخمِ جگر دکھاتا ہوں
سبھی تِہ خاک کے ہیں یہ قصے
تھوڑا بس پیشگی سناتا ہوں
مرگ ہے اصل زندگی ابرکؔ
میں ہی ظالم ہوں بھول جاتا ہوں
اتباف ابرک
No comments:
Post a Comment