Monday, 30 January 2017

نہ سوالوں سے آزماتا ہوں

نہ سوالوں سے آزماتا ہوں
نہ جوابوں سے دل جلاتا ہوں
نہ کسی بھید کی کرید ہے اب
نہ دلیلوں میں سر کھپاتا ہوں
نہ کوئی بت تراشنا ہے اب
نہ ہی دنیا میں جی لگاتا ہوں
نہ ہے دعویٰ کوئی بڑائی کا
نہ میں خود کو ولی بتاتا ہوں
نہ بیاباں پہ اب نظر میری
نہ کوئی محفلیں سجاتا ہوں
نہ کوئی رنگ، رنگ دکھتا ہے
نہ اندھیروں سے جاں چھڑاتا ہوں
نہ رہیں حاجتیں جہاں سے اب
نہ میں اب جھولیاں اٹھاتا ہوں
نہ ہیں اب یاد معنی لفظوں کے
نہ رویوں پہ تلملاتا ہوں
نہ مرا دل بہار میں لگتا
نہ کوئی گل میں اب کھلاتا ہوں
نہ گلہ خواب سے کوئی باقی
نہ میں راتوں کو اب جگاتا ہوں
نہ کسی سے بھی اب عداوت ہے
نہ محبت پہ بھنبھناتا ہوں
نہ وہ کرب و فراق کے جھنجھٹ 
نہ کسی آنکھ جھلملاتا ہوں
نہ ہوس مال و زر کی اب باقی
نہ ہے کچھ پاس، ناں گنواتا ہوں
نہ وکالت میں خود کی کرتا ہوں
نہ عدالت کوئی لگاتا ہوں
نہ کوئی شعر میرا باقی ہے
نہ میں زخمِ جگر دکھاتا ہوں
سبھی تِہ خاک کے ہیں یہ قصے 
تھوڑا بس پیشگی سناتا ہوں
مرگ ہے اصل زندگی ابرکؔ
میں ہی ظالم ہوں بھول جاتا ہوں

اتباف ابرک

No comments:

Post a Comment