Tuesday 31 January 2017

یہ تماشے سر بازار بہت ہوتے ہیں

یہ تماشے سرِ بازار بہت ہوتے ہیں 
اچھی آنکھوں کے خریدار بہت ہوتے ہیں
ایک تو دل بھی لگائے سے نہیں لگتا ہے
دوسرا شہر میں تہوار بہت ہوتے ہیں
زندہ لاشوں کا یہاں سوگ نہیں کرتا کوئی 
مرنے والوں کے عزادار بہت ہوتے ہیں
ایسے مفلس بھی مرے حلقۂ احباب میں ہیں 
جن کے گھر پیسے کے انبار بہت ہوتے ہیں
ٹھیک سے ہم بھی یہاں نیند نہیں لے سکتے 
لوگ بھی خواب سے بیدار بہت ہوتے ہیں
کام کی کوئی خبر تو نہیں ہوتی لیکن 
ان دنوں میز پہ اخبار بہت ہوتے ہیں
ہم بھی شاعر ہیں مگر تم کو ذرا دھیان رہے 
اس قبیلے میں اداکار بہت ہوتے ہیں
بات کرنے کا سلیقہ ہو تو گھر کے صاحب
جان لیجے، در و دیوار بہت ہوتے ہیں
عشق دریا سے کوئی پار کہاں ہوتا ہے 
ڈوبنے کے لیے تیار بہت ہوتے ہیں
جاں سے جانا تو ہے پھر جان سے جانا عامی 
زندہ رہنے کے بھی آزار بہت ہوتے ہیں

عمران عامی

No comments:

Post a Comment