مجھے آرزو تھی جس کی وہ پیام آ گیا ہے
میرے دل کی دھڑکنوں میں تِرا نام آ گیا ہے
یہ کہاں نصیب میرے کہ تو آپ چل کے آتا
کوئی جذبۂ محبت میرے کام آ گیا ہے
مجھے کر گیا ہے رسوا تیرا بے رخی سے ملنا
میں کروں جو پیار تجھ سے تو بُرا نہ مان لینا
جہاں دل رہے نہ بس میں وہ مقام آ گیا ہے
حمایت علی شاعر
اس گیت کو قتیل شفائی سے بھی منسوب کیا جاتا ہے، کوئی صاحبِ علم دوست اس سلسلے میں رہنمائی کرے تو مشکور ہوں گا۔
No comments:
Post a Comment