Saturday, 28 January 2017

مجھے آرزو تھی جس کی وہ پیام آ گیا ہے

مجھے آرزو تھی جس کی وہ پیام آ گیا ہے 
میرے دل کی دھڑکنوں میں تِرا نام آ گیا ہے 
یہ کہاں نصیب میرے کہ تو آپ چل کے آتا 
کوئی جذبۂ محبت میرے کام آ گیا ہے 
مجھے کر گیا ہے رسوا تیرا بے رخی سے ملنا 
جو چھپا تھا راز دل میں سرِ عام آ گیا ہے 
میں کروں جو پیار تجھ سے تو بُرا نہ مان لینا 
جہاں دل رہے نہ بس میں وہ مقام آ گیا ہے

حمایت علی شاعر

اس گیت کو قتیل شفائی سے بھی منسوب کیا جاتا ہے، کوئی صاحبِ علم دوست اس سلسلے میں رہنمائی کرے تو مشکور ہوں گا۔

No comments:

Post a Comment