ہم جانا چاہتے تھے جدھر بھی، نہیں گئے
اور انتہا تو یہ ہے کہ گھر بھی نہیں گئے
وہ خواب جانے کیسے خرابے میں گم ہوئے
اس پار بھی نہیں ہیں، اُدھر بھی نہیں گئے
صاحب! تمہیں خبر ہی کہاں تھی کہ ہم بھی ہیں
بارش ہوئی تو ہے مگر اتنی کہ یہ ظروف
خالی نہیں رہے ہیں تو بھر بھی نہیں گئے
عادلؔ زمینِ دل سے زمانے خیال کے
گزرے کچھ اِس طرح کہ گزر بھی نہیں گئے
ذوالفقار عادل
No comments:
Post a Comment