Friday, 27 January 2017

غالب نے کی یہ عرض خداوند ذوالجلال

غالب دلی میں

غالب نے کی یہ عرض خداوندِ ذوالجلال
جنت سے کچھ دنوں کیلئے کر مجھے بحال
مہ وش مرے کلام کو سازوں پہ گائے ہیں
قسمت نے بعد مرنے کے کیا دن دکھائے ہیں
شاعر جو منحرف تھے وہ مرعوب ہو گئے
ایواں جو میرے نام سے منسوب ہو گئے
خادم کا اس ادارے سے رشتہ ہے باہمی
اک بار میں بھی دیکھ لوں غالب اکادمی
ہر شخص کے حضور میں پھیلائے ہات تھا
ناقدریوں کے دور میں فدوی حیات تھا
حکمِ خدا ہوا کہ ذرا جلد جائیے
دنیا کو جا کے پھر سے ذرا دیکھ آئیے
ساغر بہ احترام خدا کے وکیل نے
دلی میں لا کے چھوڑ دیا جبرئیل نے
اک ساتھ دو بسیں جو بھنا بھن کر گزر گئیں
حوروں نے جو سنواری تھیں زلفیں بکھر گئیں
کاندھے سے کاندھا مار کے مہ وش نکل گیا
اولٰی سے ثانی شعر کا میٹر بدل گیا
بیٹھے جو بس میں اور ہوئے ہوش باختہ
جنت کی سمت اڑتی نظر آئی فاختہ
جھٹکے سے بس کے ریشمی پوشاک پھٹ گئی
جھرمٹ میں لڑکیوں کے تھے اور جیب کٹ گئی
دیکھا جو ہپیوں کو تو دل شاد ہو گئے
سمجھے کہ قیدی قید سے آزاد ہو گئے
خفیہ پولس بھی عادت و اطوار دیکھ کر
پیچھے لگی تھی جبہ و دستار دیکھ کر
غالب کی جو نگاہ ادھر سے ادھر گئی
اردو کی اک کتاب نظر سے گزر گئی
اردو کے زر نگار کسی آفتاب نے
طوطے کو ''ت'' سے لکھا تھا خانہ خراب نے
غالب یہ سمجھے یار کہیں پوپلا نہ ہو
تصنیف کرنے والا کہیں توتلا نہ ہو
یہ داغ دھل سکیں گے نہ اشکوں کے دھوئے سے
تا عمر میں نے لکھا ہے طوطے کو ''ط'' سے
واللہ بے بلائے براتی سے ہو گئی
غالب کی بھینٹ ایک صحافی سے ہو گئی
بولے بڑے وقار سے غالب ہے میرا نام
جنت سے ساتھ آئے ہیں جبریلِ ذی مقام
بولے کہ کتنے لوگوں پہ غالب کا بھوت ہے
ہیں آپ واقعی کوئی اس کا ثبوت ہے
بے نور جو چراغ ہیں وہ آفتاب ہیں
کس کس کو ہم بتائیں کہ غالب جناب ہیں
واللہ جھوم جائے گی دنیا حضور کی
جنت سے ساتھ لایا ہوں تصویر حور کی
تصویر دیکھ کر کہا سنئے بڑے میاں
اس شکل کی ملیں گی ہزاروں ہی لڑکیاں
حوروں سے گاہ گاہ جو خط میں نے پائے ہیں
جبریل اپنے ساتھ وہ سب لے کے آئے ہیں
خط پڑھ کے بولے واہ یہی خط ہیں کیا جناب
جن میں نہ سوز و ساز نہ شکوے نہ اضطراب
یہ خط بھی پڑھ کے دیکھیے جو میرے پاس ہیں
حوروں سے بڑھ کے لڑکیاں یاں ایڈوانس ہیں
ہر آرزوئے دل کو بہ تصویر لکھتی ہیں
ماتا پتا کو پاؤں کی زنجیر لکھتی ہیں
آئے تھے چار روز کو جلدی گزر گئے
غالبؔ وفورِ شرم سے دو دن میں مر گئے
پوچھا خدا نے حال تو غالب نے یہ کہا
جنت سے اب نہ جائے گا یہ بندۂ خدا
جینا زمانے والوں نے دشوار کر دیا
پہچاننے سے بھی مرے انکار کر دیا
آئی صدائے حق کہ یہی بند و بست ہیں
تیرے وطن کے لوگ تو مردہ پرست ہیں

ساغر خیامی

No comments:

Post a Comment