نہ خم و سبو ہوئے چور ابھی نہ حجابِ پیرِ فغاں اُٹھا
ابھی مست بادہ پرست ہیں ابھی لطفِ بادہ کہاں اٹھا
جو حضور چیں بہ جبیں ہوئے کہا کس نے شور فغاں اٹھا
رہے خیر برق نگاہ کی کوئی دل جلا، نہ دھواں اٹھا
یہ کہے زمانہ جواں ہے تو قدم ایسا مرد جواں اٹھا
یہ کہاں بہارِ جمال ہے کہ جہاں خزاں نہ زوال ہے
تری بزمِ ناز سے جو اٹھا وہ حسیں اٹھا وہ جواں اٹھا
جو بڑھے تو جاں پہ آ بنے جو گھٹے تو جاں پہ آ بنے
جسے دل نصیب سے مل گیا عجب اس کے درد نہاں اٹھا
کسی رہگزر میں پڑے ہیں ہم عبث آسماں کی ہیں رنجشیں
کوئی لاکھ اٹھائے اٹھیں گے کیا کہیں پاؤں کا بھی نشاں اٹھا
ہےحجابِ حسن کا یہ اثر، کسی خود پرست کو کیا خبر
جو ازل سے سینہ میں جوش تھا وہی بن کے شورِ فغاں اٹھا
کسی مۓ کدے میں رہا جگؔر کہ تھا محو خواب میں رات بھر
ہوئیں کیا بشارتیں صبح دم اٹھا تو زمزمہ خواں اٹھا
جو ہوئے فرشتوں میں مشورے کرے کون عشق کی راہ طے
کمر اپنی باندھ کے جو اٹھا تو جگؔر سا مردِ جوں اٹھا
جگر بریلوی
No comments:
Post a Comment