خلقتِ شہر سے کیوں ایسی بری بات کہے
اس کو پاگل ہی کہو رات کو جو رات کہے
جاننا چاہو جو گلشن کی حقیقت، تو سنو
بات وہ شاخ سے نُچ کر جو جھڑا پات کہے
اس سے بڑھ کر بھی ہو کیا غیر کی بالادستی
کون روکے گا بھلا وقتِ مقرر پہ اسے
بات ہر صبح یہی جاتی ہوئی رات کہے
بس میں انساں کے کہاں آئے ترفع اس سا
وقت ہر آن جو اپنی سی مناجات کہے
منحرف حرف سے کاغذ بھی لگے جب
کس سے جا کر یہ قلم شدتِ صدمات کہے
ماجد صدیقی
No comments:
Post a Comment