بچھڑے جب اس سے ہم تو بڑے پیچ و تاب میں
چہرے کے پھول رکھ لیے، دل کی کتاب میں
میدانِ زیست میں تو رہے تھے دلیر ہم
کمزور تھے تو صرف محبت کے باب میں
کیا کیا برائیاں نہ سہیں جان و دل پہ اور
تازہ نگاہ، جس نے کیا ہم کو بار بار
کیا خوبیاں تھیں اسکے بدن کے گلاب میں
قائم رہا اسی کے سبب خیمۂ حیات
تھا جتنا زور خاک میں اتری طناب میں
مدت سے دل مِرا ہے جو تاریک کر گیا
آتا ہے چودھویں کو نظر ماہتاب میں
نا اہل ناخداؤں کی ناؤ میں جب سے ہے
ماؔجد گِھری ہے خلقِ خدا کس عذاب میں
ماجد صدیقی
No comments:
Post a Comment