اس نے گھٹیا پن دکھایا ہے تو اس کا کیا کروں
اس میں مجھ میں فرق کیا، میں بھی اگر ویسا کروں
وہ نہ خوشبوئے بدن تک کی کرن لوٹا سکیں
تتلیوں کے ہاتھ نامے میں، جنہیں بھیجا کروں
سرخرو مجھ سا، نہ مجھ سا ہو کوئی با آبرو
مجھ کو ہر قیمت پہ دُھن بس کچھ نہ کچھ پانے کی ہے
میں نے کیا کھویا ہے اس میں، یہ نہ اندازہ کروں
دھجیاں اخلاق کی یوں ہیں گرانی سے اڑیں
میہماں کوئی ہو اگلے پل اسے چلتا کروں
وقت نے مدت ہوئی، جوتے ہیں مرے الٹا دیئے
کاش میں بھی یہ اشارے کچھ نہ کچھ سمجھا کروں
میرے اندر کا ضمیرِ مستعد بولے یہی
بدسلوکوں سے بھی ماؔجد میں سلوک اچھا کروں
ماجد صدیقی
No comments:
Post a Comment