دور ہوتی جاتی ہیں کشتیاں کناروں سے
اب لپٹ کے روئیں گے پھول شاخساروں سے
تم فقط زمانے کو ساتھ لے کے آئے تھے
ہم اٹھا کے لائے ہیں روشنی کو غاروں سے
پاؤں جم گئے تو کیا، رقص تھم گئے تو کیا
خوشبوئیں تو اٹھتی ہیں وصل کے مزاروں سے
حرف اک تسلی کا لفظ اک تشفّی کا
کوئی بات تو کیجیے آج بے قراروں سے
محفلوں کے سناٹے ٹوٹتے ہیں آنکھوں میں
کب بچھڑ گئے جانے یار اپنے یاروں سے
وہ بھی لوگ ہوئے ہیں اس زمیں پر جن کا
عمر بھر نہیں پڑتا واسطہ بہاروں سے
اپنے زرد پتوں پر اک نگاہ ڈالی اور
کچھ نہیں کہا واجدؔ شاخ نے بہاروں سے
واجد امیر
اب لپٹ کے روئیں گے پھول شاخساروں سے
تم فقط زمانے کو ساتھ لے کے آئے تھے
ہم اٹھا کے لائے ہیں روشنی کو غاروں سے
پاؤں جم گئے تو کیا، رقص تھم گئے تو کیا
خوشبوئیں تو اٹھتی ہیں وصل کے مزاروں سے
حرف اک تسلی کا لفظ اک تشفّی کا
کوئی بات تو کیجیے آج بے قراروں سے
محفلوں کے سناٹے ٹوٹتے ہیں آنکھوں میں
کب بچھڑ گئے جانے یار اپنے یاروں سے
وہ بھی لوگ ہوئے ہیں اس زمیں پر جن کا
عمر بھر نہیں پڑتا واسطہ بہاروں سے
اپنے زرد پتوں پر اک نگاہ ڈالی اور
کچھ نہیں کہا واجدؔ شاخ نے بہاروں سے
واجد امیر
No comments:
Post a Comment