Monday, 16 January 2017

پانی تڑپ کے چیخ اٹھے ایسے جال کھینچ

پانی تڑپ کے چیخ اٹھے ایسے جال کھینچ 
مچھلی اگر نہ آئے سمندر کی کھال کھینچ
رشتوں کے ساتھ بچوں کے جیسا سلوک کر 
غصے سے کان کھینچ، محبت سے گال کھینچ
لا میں زیاں کی آگ میں اس کو بھی جھونک دوں 
جا، دفترِ حیات سے ایک اور سال کھینچ
اپنے عروج کے لیے رستہ نیا بنا 
مت ارد گرد میرے حصار زوال کھینچ
جانا ہے مسکراتے ہوئے سب کے سامنے 
اے دل ذرا سا چہرے سے رنگِ ملال کھینچ
جیسے گھما پھِرا کے پٹختی رہی تجھے 
تُو بھی زمیں کو گیند کی صورت اچھال کھینچ
خورشیدِ صبح زاد کہیں سے نکل کے آ 
سر سے عروسِ شب کے ستاروں کا جال کھینچ
باتوں سے پُر شگافِ تعلق نہیں ہوا 
ممکن اگر ہو آئینۂ دل سے بال کھینچ

واجد امیر

No comments:

Post a Comment