اپنی ہستی کا اگر حسن نمایاں ہو جائے
آدمی کثرتِ انوار سے حیراں ہو جائے
تم جو چاہو تو مِرے درد کا درماں ہو جائے
ورنہ مشکل ہے کہ مشکل مِری آساں ہو جائے
او نمک پاش! تجھے اپنی ملاحت کی قسم
دینے والے تجھے دینا ہے تو اتنا دے دے
کہ مجھے شکوۂ کوتاہیِ داماں ہو جائے
اس سیہ بخت کی راتیں بھی کوئی راتیں ہیں
خواب راحت بھی جسے خواب پریشاں ہو جائے
خواب میں بھی نظر آ جائیں جو آثارِ بہار
بڑھ کہ دامن سے ہم آغوشِ گریباں ہو جائے
سینۂ شبلی و منصور تو پھونکا تُو نے
اس طرف بھی کرم اے جنبشِ داماں ہو جائے
آخری سانس بنے زمزمہ ہو اپنا
سازِ مضراب فنا تارِ رگِ جاں ہو جائے
تو جو اسرارِ حقیقت کہیں ظاہر کر دے
ابھی بیدؔم رسن و دار کا ساماں ہو جائے
بیدم شاہ وارثی
No comments:
Post a Comment