بنا ہوں آج تیرا مہماں، کوئی عدو کو خبر نہ کر دے
اٹھا کے تیری انجمن سے، مجھے کہیں دربدر نہ کر دے
وصل کی رات ہے خدارا! نقاب چہرے سے مت ہٹاؤ
تمہارے چہرے کا یہ اجالا سحر سے پہلے سحر نہ کر دے
ستایا جس کو ہمیشہ تُو نے، سدا اکیلا جو چھپ کے رویا
قسم جسے ضبطِ غم کی دے کر اٹھا دیا تُو نے اپنے در سے
وہ دیوانہ کہیں عمر اپنی، بغیر تیرے بسر نہ کر دے
بڑے مزے سے میں پی رہا ہوں، میری طرف تم ابھی نہ دیکھو
مجھے یہ ڈر ہے نظر تمہاری، شراب کو بے اثر نہ کر دے
قتؔیل یہ وصل کے زمانے، حسین بھی ہیں، طویل بھی ہیں
مگر لگا ہے یہ دل کو دھڑکا کہ کوئی انہیں مختصر نہ کر دے
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment