اب کسی کو بھی نظر آتی نہیں کوئی درار
گھر کی ہر دیوار پر چپکے ہیں اتنے اشتہار
آپ بچ کر چل سکیں ایسی کوئی صورت نہیں
رہگزر گھیرے ہوئے مردے کھڑے ہیں بیشمار
روز اخباروں میں پڑھ کر یہ خیال آیا ہمیں
میں بہت کچھ سوچتا رہتا ہوں پر کہتا نہیں
بولنا بھی ہے منع، سچ بولنا تو درکنار
اِس سرے سے اُس سرے تک سب شریکِ جرم ہیں
آدمی یا تو ضمانت پر رہا ہے یا فرار
حالتِ انسان پر برہم نہ ہوں اہلِ وطن
وہ کہیں سے زندگی بھی مانگ لائیں گے ادھار
رونقِ جنت ذرا بھی مجھ کو راس آئی نہیں
میں جہنم میں بہت خوش تھا مِرے پروردگار
دستکوں کا اب کواڑوں پر اثر ہو گا ضرور
ہر ہتھیلی خون سے تر اور زیادہ بے قرار
دشینت کمار
No comments:
Post a Comment