اب تو اٹھ سکتا نہیں آنکھوں سے بارِ انتظار
کس طرح کاٹے کوئی لیل و نہارِ انتظار
ان کی الفت کا یقیں ہو ان کے آنے کی امید
ہوں یہ دونوں صورتیں تو ہے بہارِ انتظار
جان و دل کا حال کیا کہیے فراقِ یار میں
میری آہیں نارسا، میری دعائیں نا قبول
یا الہٰی کیا کروں میں شرمسارِ انتظار
ان کے خط کی آرزو ہے، انکی آمد کا خیال
کس قدر پھیلا ہوا ہے کاروبارِ انتظار
ہے دلِ مسرورِ حسؔرت اک طرب زارِ امید
پھونک ڈالے گر نہ اس گلشن کو نارِ انتظار
حسرت موہانی
No comments:
Post a Comment