کھنڈر بچے ہوئے ہیں، عمارت نہیں رہی
اچھا ہوا کہ سر پہ کوئی چھت نہیں رہی
کیسی مشعلیں لے کے چلے تیرگی میں آپ
جو روشنی تھی وہ بھی سلامت نہیں رہی
ہم نے تمام عمر اکیلے سفر کیا
میرے چمن میں کوئی نشیمن نہیں رہا
یا یوں کہو کہ برق کی دہشت نہیں رہی
کچھ دوستوں سے ویسے مراسم نہیں رہے
کچھ دشمنوں سے ویسی عداوت نہیں رہی
ہم کو پتہ نہیں تھا، ہمیں اب پتہ چلا
اس ملک میں ہماری حکومت نہیں رہی
ہمت سے سچ کہو تو برا مانتے ہیں لوگ
رو رو کے بات کہنے کی عادت نہیں رہی
سینے میں زندگی کی علامات ہیں ابھی
گو زندگی کی کوئی ضرورت نہیں رہی
دشینت کمار
No comments:
Post a Comment