سکتہ ہے مجھ کو کوچۂ دلدار دیکھ کر
دیوار بن گیا در و دیوار دیکھ کر
دیکھا نہ اور کچھ رخِ دلدار دیکھ کر
آنکھیں سفید ہو گئیں رخسار دیکھ کر
لگتی ہے آگ جوشِ خریدار دیکھ کر
ٹھوکر بھی راہِ عشق میں کھانی ضرور ہے
چلتا نہیں ہوں راہ کو ہموار دیکھ کر
آئندہ حسنِ یار خدا جانے کیا کرے
دو چار سن کے مر گئے دو چار دیکھ کر
افسوس جنسِ دل کی نہ کچھ ہم نے قدر کی
کرنا تھا مول چشمِ خریدار دیکھ کر
معشوق کا اگرچہ ہے شیوہ ستم گری
لیکن برے بھلے کو مِرے یار دیکھ کر
احباب کوۓ یار سے کیا لائیں داؔغ کو
وہ تو پھسل پڑا در و دیوار دیکھ کر
داغ دہلوی
No comments:
Post a Comment