Thursday 19 January 2017

دل رکھ تو دیا ہے نگہ یار کے آگے

دل رکھ تو دیا ہے نگہِ یار کے آگے
اف کر نہیں سکتا ہوں خریدار کے آگے
آتی نہیں اب تک اسی باعث سے قیامت
کیا پیش چلے گی تِری رفتار کے آگے
میں حسن سے سکتے میں وہ ہے عشق سے حیراں
دیوار کھڑی ہو گئی دیوار کے آگے
بجلی کی طرح کانپنے لگتی ہے اجل بھی
ٹھہرا نہیں جاتا تِری تلوار کے آگے
اس ضعف میں بھی راہِ محبت میں ہے یہ حال
دو چار کے پیچھے ہوں تو دو چار کے آگے
گلزار میں نرگس سے نہ تم آنکھ ملانا
بیمار کو لاتے نہیں بیمار کے آگے
میں موسیِٰ عمراں، نہ خدا تُو بتِ کافر
باتیں نہ بنا طالبِ دیدار کے آگے
یا کھانے دے گلشن کی ہوا تو اسے صیاد
یا زہر ہی رکھ مرغِ گرفتار کے آگے
گھر میں تو رسائی نہیں لیکن مِری تصویر
دیوار پہ چسپاں ہے درِ یار کے آگے
ان تک بھی پہنچ جائے گا جو حال ہے میرا
ہر روز یہی ذکر ہے دو چار کے آگے
کعبے میں ٹھکانا ہے نہ بت خانے میں اپنا
مر جائیں گے جا کر درِ دلدار کے آگے
سر کاٹ کے عاشق کا نہ اترائیے اتنا
اک دن یہ کِیا آئے گا سرکار کے آگے
فرقت میں بیاں کس سے کروں اپنی مصیبت
کیا حال کہوں میں در و دیوار کے آگے
پہلے یہ دعا مانگ لی اس کو نہ ہو صدمہ
جب درد کہا داغؔ نے غمخوار کے آگے

داغ دہلوی

No comments:

Post a Comment