Thursday 19 January 2017

اپنے تئیں تو ہر گھڑی غم ہے الم ہے داغ ہے

اپنے تئیں تو ہر گھڑی غم ہے الم ہے داغ ہے
یاد کرے ہمیں کبھی، کب یہ تجھے دماغ ہے
جی کی خوشی نہیں گر و سبزہ و گل کے ہاتھ کچھ
دل ہو شگفتہ جس جگہ، وہ ہی چمن، ہے باغ ہے
کس کی یہ چشمِ مست نے بزم کو یوں چھکا دیا
مثلِ حباب سرنگوں شرم سے ہرا باغ ہے
جلتے ہی جلتے صبح تک گزری اسے تمام شب
دل ہے کہ شعلہ ہے کوئی شمع ہے یا چراغ ہے
پائیے کس جگہ بتا اے بُتِ بے وفا تجھے
عمرِ گزشتہ کی طرح گم ہی سدا سراغ ہے
سیرِ بہار و باغ سے ہم کو معاف کیجئے
اس کے خیالِ زلف سے درؔد کسے فراغ ہے

خواجہ میر درد

No comments:

Post a Comment