کبھی خوش بھی کیا ہے دل! کسی رندِ شرابی کا
بھِڑا دے منہ سے منہ ساقی ہمارا اور گلابی کا
چھپے ہرگز نہ مثلِ بُو، وہ پردوں کے چھپاۓ سے
مزہ پڑتا ہے جس گل پیرہن کو بے حجابی کا
شرار و برق کی سی بھی نہیں یہاں فرصتِ ہستی
میں اپنا دردِ دل چاہا کہوں جس پاس عالم میں
بیاں کرنے لگا قصہ وہ اپنی ہی خرابی کا
زمانے کی نہ دیکھی جرعہ ریزی درد کچھ تُو نے
ملایا مثلِ مینا خاک میں خوں ہر شرابی کا
خواجہ میر درد
No comments:
Post a Comment