Thursday 19 January 2017

کبھی خوش بھی کیا ہے دل کسی رند شرابی کا

کبھی خوش بھی کیا ہے دل! کسی رندِ شرابی کا
بھِڑا دے منہ سے منہ ساقی ہمارا اور گلابی کا
چھپے ہرگز نہ مثلِ بُو، وہ پردوں کے چھپاۓ سے
مزہ پڑتا ہے جس گل پیرہن کو بے حجابی کا
شرار و برق کی سی بھی نہیں یہاں فرصتِ ہستی
فلک نے ہم کو سونپا کام جو کچھ تھا شتابی کا
میں اپنا دردِ دل چاہا کہوں جس پاس عالم میں
بیاں کرنے لگا قصہ وہ اپنی ہی خرابی کا
زمانے کی نہ دیکھی جرعہ ریزی درد کچھ تُو نے
ملایا مثلِ مینا خاک میں خوں ہر شرابی کا

خواجہ میر درد

No comments:

Post a Comment