رات کے پردے سرکنے لگے اب کیا سوئیں
شیشے کھڑکی کے چمکنے لگے اب کیا سوئیں
نیند کا شبنمی ماحول اڑا جاتا ہے
صبح کے رنگ دہکنے لگے اب کیا سوئیں
گلِ خورشید کھلا شاخِ افق پر دیکھو
پیڑ امید کا بیدار ہوا آنگن میں
آس کے پنچھی چہکنے لگے اب کیا سوئیں
پھر نظر پڑ گئی آغوشِ تہی پر اپنے
پھر ترا راستہ تکنے لگے اب کیا سوئیں
لیاقت علی عاصم
No comments:
Post a Comment