Wednesday 18 January 2017

رات کے پردے سرکنے لگے اب کیا سوئیں

رات کے پردے سرکنے لگے اب کیا سوئیں
شیشے کھڑکی کے چمکنے لگے اب کیا سوئیں
نیند کا شبنمی ماحول اڑا جاتا ہے
صبح کے رنگ دہکنے لگے اب کیا سوئیں
گلِ خورشید کھلا شاخِ افق پر دیکھو
باغ، بن سارے مہکنے لگے اب کیا سوئیں
پیڑ امید کا بیدار ہوا آنگن میں
آس کے پنچھی چہکنے لگے اب کیا سوئیں
پھر نظر پڑ گئی آغوشِ تہی پر اپنے
پھر ترا راستہ تکنے لگے اب کیا سوئیں

لیاقت علی عاصم

No comments:

Post a Comment