جو کچھ ہوا، ہوا کہ محبت بلا کی تھی
اس وصل میں فراق کی شدت بلا کی تھی
میرا وجود بھی کسی صحرا سے کم نہ تھا
اس کی سپردگی میں بھی وحشت بلا کی تھی
اس نے کہا کے ہم نے تمہیں سونپ دی حیا
یاد آیا اور بھول گیا لمسِ برگِ گل
چھونے میں ان لبوں کے لطافت بلا کی تھی
اپنے سوا کسی کو سنا ہی نہیں سکا
اس پیکرِ حیا کی حکایت بلا کی تھی
دل سے لگا لیا کبھی در پر بٹھا دیا
اس کا مزاج اس کی طبیعت بلا کی تھی
جب بھی خفا ہوا وہ غزل سے منا لیا
اس سلسلے میں میری ریاضت بلا کی تھی
لیاقت علی عاصم
No comments:
Post a Comment