سفر ہو چار سُو کا اور اک منزل سے ہو آئیں
ذرا ہم حال سے نکلیں تو مستقبل سے ہو آئیں
شمال و شرق میں جھانکیں جنوب و غرب میں اتریں
مگر اس سے تو اچھا ہے کسی کے دل سے ہو آئیں
مگر یکسانیت میں ایسی یکسوئی قیامت ہے
بہت دن ہو گئے اے دل! کہیں وحشت کیے ہم کو
تجھے زحمت نہ ہو تو کوچۂ قاتل سے ہو آئیں
دلِ خوں گشتہ کی یہ آخری خواہش ہے کیا کیجے
صفِ احباب سے نکلیں، کفِ قاتل سے ہو آئیں
لیاقت علی عاصم
No comments:
Post a Comment