ہم میکدے سے مر کے بھی باہر نہ جائیں گے
مۓ کش ہماری خاک کے ساغر بنائیں گے
وہ اک کہیں گے ہم سے تو ہم سو سنائیں گے
منہ آئیں گے ہمارے تو اب منہ کی کھائیں گے
کچھ چارہ سازی ہجر میں نالوں نے کی مِری
وہ مثلِ اشک اٹھ نہیں سکتا زمین سے
جس کو حضور اپنی نظر سے گرائیں گے
جھونکے نسیمِ صبح کے آ آ کے ہجر میں
اک دن چراغِ ہستئ عاشق بجھائیں گے
صحرا کی گرد ہو گی کفن مجھ غریب کا
اٹھ کر بگولے میرا جنازہ اٹھائیں گے
اب ٹھان لی ہے دل میں کہ سر جائے یار ہے
جیسے اٹھے گا بارِ محبت اٹھائیں گے
گردش نے میری چرخ کا چکرا دیا دماغ
نالوں سے اب زمیں کے طبق تھرتھرائیں گے
بیدمؔ وہ خوش نہیں ہیں تو اچھا یونہی سہی
ناخوش ہی ہو کے غیر مِرا کیا بنائیں گے
بیدم شاہ وارثی
No comments:
Post a Comment