Monday 16 January 2017

پرانے سال کی ٹھٹھری ہوئی پرچھائیاں سمٹیں

سال نو

پرانے سال کی ٹھٹھری ہوئی پرچھائیاں سمٹیں
نئے دن کا نیا سورج افق پر اٹھتا آتا ہے
زمیں نے پھر نئے سر سے نیا رختِ سفر باندھا
خوشی میں ہر قدم پر آفتاب آنکھیں بچھاتا ہے
ہزاروں خواہشیں انگڑائیاں لیتی ہیں سینے میں
جہان آرزو کا ذرہ ذرہ گنگناتا ہے
امیدیں ڈال کر آنکھوں میں آنکھیں مسکراتی ہیں
زمانہ جنبشِ مژگاں سے افسانے سناتا ہے
مسرت کے جواں ملاح کشتی لے کے نکلے ہیں
غموں کے نا خداؤں کا سفینہ ڈگمگاتا ہے
خوشی مجھ کو بھی ہے لیکن میں یہ محسوس کرتا ہوں
مسرت کے اس آئینے میں غم بھی جھلملاتا ہے

علی سردار جعفری

No comments:

Post a Comment