سال نو
پرانے سال کی ٹھٹھری ہوئی پرچھائیاں سمٹیں
نئے دن کا نیا سورج افق پر اٹھتا آتا ہے
زمیں نے پھر نئے سر سے نیا رختِ سفر باندھا
خوشی میں ہر قدم پر آفتاب آنکھیں بچھاتا ہے
ہزاروں خواہشیں انگڑائیاں لیتی ہیں سینے میں
امیدیں ڈال کر آنکھوں میں آنکھیں مسکراتی ہیں
زمانہ جنبشِ مژگاں سے افسانے سناتا ہے
مسرت کے جواں ملاح کشتی لے کے نکلے ہیں
غموں کے نا خداؤں کا سفینہ ڈگمگاتا ہے
خوشی مجھ کو بھی ہے لیکن میں یہ محسوس کرتا ہوں
مسرت کے اس آئینے میں غم بھی جھلملاتا ہے
علی سردار جعفری
No comments:
Post a Comment