ڈس چکیں جب مِرے دل کو خود میری تنہائیاں
شہرِ غم میں بج اٹھی ہیں دور تک شہنائیاں
پھول، نغمہ، چاند تارے، جام، صہبا، چاندنی
اک تبسم آپ کا، اور سینکڑوں رعنائیاں
دے دئیے پھولوں کو کتنے نیلے پیلے پیرہن
اس قدر مانوس تنہائی نہ خود کو کیجئے
چین سے رہنے نہ دیں گی یادوں کی پرچھائیاں
پھر جلی بادِ بہاری،۔ پھر ہوئی صبحِ جنوں
پھر وہی کوئے ملامت، پھر وہی رسوائیاں
کیفؔ کوئی مجھ سے پوچھے کیا ہے بیخوابی کا لطف
چاندنی راتوں کا جادو،۔ اور میری تنہائیاں
کیف عظیم آبادی
No comments:
Post a Comment