کون رکھے گا وقارِ عاشقی میری طرح
آپ کو سمجھا ہے کس نے زندگی میری طرح
مجھ کو سن لو، میں غنیمت ہوں ابھی تک دوستو
کون بخشے گا غزل کو نغمگی میری طرح
ہر نظر میں میں نے دیکھی بیوفائی کی چمک
وہ جمال مہ نہیں ہے، اور نہ مہرِ نیم روز
نام کچھ بھی ہو مگر ہے آدمی میری طرح
اشک پی کر مسکرائے ہیں تمہاری بزم میں
پوچھ لو کس نے بجھائی تشنگی میری طرح
کس لیے دنیا سے کرتے ہو اندھیرے کا گلہ
تم بھی کر لو گھر جلا کر روشنی میری طرح
کیفؔ کیوں تلقین کی جاتی ہے مجھ کو ضبط کی
کس نے ہونٹوں پر سجائی ہے ہنسی میری طرح
کیف عظیم آبادی
No comments:
Post a Comment