جفا کا ساتھ دیا، بے رخی کا ساتھ دیا
مِرے حبیب! تِری ہر خوشی کا ساتھ دیا
پکارتا ہی رہا گو مجھے غمِ جاناں
تمام عمر غمِ زندگی کا ساتھ دیا
کیا جو چاک گریباں تو پھول کھل اٹھے
سکوں نصیب سکندر کو کب ہوا اے خضر
برا کیا جو تِری کج روی کا ساتھ دیا
فریب کارئ احباب کیا کہوں اے کیفؔ
ستم اٹھاتے رہے دوستی کا ساتھ دیا
کیف عظیم آبادی
No comments:
Post a Comment