Friday 20 January 2017

مرے دل کو زخموں کی سوغات دے دو

مِرے دل کو زخموں کی سوغات دے دو
مِری خشک آنکھوں کو برسات دے دو
بھٹکتا رہا ہوں میں صحرا بہ صحرا
مِرے دل کو ربطِ خیالات دے دو
فضاؤں سے برسو گھٹاؤں کی صورت
زمیں کو لباسِ نباتات دے  دو
اندھیرے بہت ہیں جدائی کے گہرے
اندھیروں کو شمعِ ملاقات دے دو
زبانِ غزل ہے بہت کیفؔ نازک
زبان غزل کو اشارات دے دو

کیف عظیم آبادی

No comments:

Post a Comment