مِرے دل کو زخموں کی سوغات دے دو
مِری خشک آنکھوں کو برسات دے دو
بھٹکتا رہا ہوں میں صحرا بہ صحرا
مِرے دل کو ربطِ خیالات دے دو
فضاؤں سے برسو گھٹاؤں کی صورت
اندھیرے بہت ہیں جدائی کے گہرے
اندھیروں کو شمعِ ملاقات دے دو
زبانِ غزل ہے بہت کیفؔ نازک
زبان غزل کو اشارات دے دو
کیف عظیم آبادی
No comments:
Post a Comment