Thursday 19 January 2017

مرتے مرتے ہوش باقی تیرے دیوانے میں تھا

کچھ کہے جاتا تھا غرق اپنے ہی افسانے میں تھا
مرتے مرتے ہوش باقی تیرے دیوانے میں تھا
ہائے وہ خودرفتگی الجھے ہوۓ سب سر کے بال
وہ کسی میں اب کہاں جو تیرے دیوانے میں تھا
دیکھتا تھا جس طرف اپنا ہی جلوہ تھا عیاں
میں نہ تھا وحشی کوئی اس آئینہ خانے میں تھا
سن چکے جب حال میرا لے کے انگڑائی کہا
کس غضب کا درد ظالم تیرے افسانے میں تھا
بوریہ تھا کچھ شبینہ میں تھی، یا ٹوٹے سبُو
اور کیا اس کے سوا مستوں کے میخانے میں تھا
دیر تک میں ٹکٹکی باندھے ہوۓ دیکھا کیا
چہرۂ ساقی نمایاں صاف پیمانے میں تھا
دون کی بیٹھا ہوا لیتا ہے زاہد کیا کہوں
متقی ساقی سے بڑھ کر کون میخانے میں تھا
ہنستے ہنستے رو دیا کرتے تھے سب بے اختیار
اک نئی ترکیب کا درد اپنے افسانے میں تھا
خود غرض دنیا کی حالت قابلِ عبرت تھی شاؔد
لطف ملنے کا نہ اپنے اور بے گانے میں تھا
شاؔد کچھ پوچھو نہ مجھ سے میرے دل کے داغ کو
ٹمٹماتا سا چراغ اک اپنے ویرانے میں تھا

شاد عظیم آبادی

No comments:

Post a Comment