کچھ کہے جاتا تھا غرق اپنے ہی افسانے میں تھا
مرتے مرتے ہوش باقی تیرے دیوانے میں تھا
ہائے وہ خودرفتگی الجھے ہوۓ سب سر کے بال
وہ کسی میں اب کہاں جو تیرے دیوانے میں تھا
دیکھتا تھا جس طرف اپنا ہی جلوہ تھا عیاں
سن چکے جب حال میرا لے کے انگڑائی کہا
کس غضب کا درد ظالم تیرے افسانے میں تھا
بوریہ تھا کچھ شبینہ میں تھی، یا ٹوٹے سبُو
اور کیا اس کے سوا مستوں کے میخانے میں تھا
دیر تک میں ٹکٹکی باندھے ہوۓ دیکھا کیا
چہرۂ ساقی نمایاں صاف پیمانے میں تھا
دون کی بیٹھا ہوا لیتا ہے زاہد کیا کہوں
متقی ساقی سے بڑھ کر کون میخانے میں تھا
ہنستے ہنستے رو دیا کرتے تھے سب بے اختیار
اک نئی ترکیب کا درد اپنے افسانے میں تھا
خود غرض دنیا کی حالت قابلِ عبرت تھی شاؔد
لطف ملنے کا نہ اپنے اور بے گانے میں تھا
شاؔد کچھ پوچھو نہ مجھ سے میرے دل کے داغ کو
ٹمٹماتا سا چراغ اک اپنے ویرانے میں تھا
شاد عظیم آبادی
No comments:
Post a Comment