زمانہ بتوں پر فدا ہو رہا ہے
خدا کی خدائی میں کیا ہو رہا ہے
ستم ہو کے عذرِ جفا ہو رہا ہے
وہ کیا ہو رہا تھا، یہ کیا ہو رہا ہے
دھڑکتا ہے دل، کانپتا ہے کلیجا
یہ آ کر کہا مجھ سے پیغامبر نے
وہاں دشمنوں کا کہا ہو رہا ہے
تڑپنے کو میرے نیا کھیل سمجھے
کہا دور ہی سے یہ کیا ہو رہا ہے
تغافل سے اس کے اچٹنے لگا دل
برائی میں میرا بھلا ہو رہا ہے
جگت آشنا داغؔ ملتا تھا سب سے
مگر اب تو وہ آپ کا ہو رہا ہے
داغ دہلوی
No comments:
Post a Comment