Tuesday, 17 January 2017

معشوق کا تو جرم ہو عاشق خراب ہو

معشوق کا تو جرم ہو، عاشق خراب ہو
کوئی کرے گناہ، کسی پر عذاب ہو
تو مجھ پہ شیفتہ ہو، مجھے اجتناب ہو
یہ انقلاب ہو،۔ تو بڑا انقلاب ہو
دنیا میں کیا دھرا ہے، قیامت میں لطف ہے
میرا جواب ہو، نہ تمہارا جواب ہو
نکلے جدھر سے وہ، یہی چرچا ہوا کیا
اس طرح کا جمال ہو، ایسا شباب ہو
دو بار تُو نے ذکر کیا رشکِ حور کا
ناصح خدا کرے تجھے دُونا ثواب ہو
مہجور کی دعا کو شبِ قدر چاہیے
یوسف کے دیکھنے کو زلیخا کا خواب ہو
درپردہ تم جلاؤ جلاؤں نہ میں، چہ خوش
میرا بھی نام داغؔ ہے، گر تم حجاب ہو

داغ دہلوی

No comments:

Post a Comment