Tuesday, 17 January 2017

ہو بزم راز تو آشوب کار میں کیا ہے

ہو بزمِ راز تو آشوبِ کار میں کیا ہے
شراب تلخ سہی ایک بار میں کیا ہے
مآلِ کوہ کنی بھی نہ ہو سکا حاصل
نجانے حیلۂ شیریں شکار میں کیا ہے
جواب کچھ نہ ملے گا مگر سوال تو کر
کہ سوزِ غنچہ و صوتِ ہزار میں کیا ہے
ستم شعار نے خود کتنے زخم کھائے ہیں
کبھی شمار تو کرنا شمار میں کیا ہے
نزاکتوں نے نچوڑا ہے محنتوں کا لہو
نگار خانۂ شہر و دیار میں کیا ہے
یہ انبساطِ گلستاں یہ ارتعاشِ نسیم
اگرچہ کچھ بھی نہ ہوں اعتبار میں کیا ہے
غبارِ رنگ فضا ہی میں پَر فشاں رہتا
اس اہتمامِ نشستِ غبار میں کیا ہے

جون ایلیا

No comments:

Post a Comment