یہ فرمائش غزل کی ہے کہ فن کی آزمائش ہے
چلو جو بھی ہے اک جانِ سخن کی آزمائش ہے
مبارک ہو، بلاوہ آ گیا مستوں کو مقتل سے
چل اے دل اب تِرے دیوانہ پن کی آزمائش ہے
بہت سے ہاتھ ہیں دامانِ دل کو کھینچنے والے
نہیں کچھ قصۂ یوسف زلیخا میں بجز اس کے
کسی کے دل، کسی کے پیرہن کی آزمائش ہے
چلو دل امتحانِ عاشقی میں سرخرو ٹھہرا
مگر یہ عشق تو پورے بدن کی آزمائش ہے
جو ہیں منقار زیرِ پَر کہاں محفوظ ہیں وہ بھی
ابھی تو خوشنوایانِ چمن کی آزمائش ہے
یہ سن کر مۓ کدے میں آج سارا شہر امڈ آیا
کہ مۓ نوشی میں شیخ و برہمن کی آزمائش ہے
نہ وہ خسرو، نہ جوئے شیر شرطِ وصل شیریں ہے
تو کیوں کوہاٹ کے ایک کوہکن کی آزمائش ہے
فرازؔ آیا نہیں،۔ لایا گیا اس کی قلمرو میں
کہاں غالب کہاں اک بے وطن کی آزمائش ہے
احمد فراز
No comments:
Post a Comment